کیلا دنیا کا قدیم ترین اور معروف ترین پھل ہے۔ یہ بیج کے بغیر ایک ایسا لذیذ پھل ہے جو ہر موسم میں ملتا ہے۔ اس کا موٹا چھلکا اسے بیکٹیریا اور آلودگی سے بچائے رکھتا ہے۔
غذائی اہمیت
کیلا زبردست غذائی صلاحیت رکھتا ہے۔ توانائی، ریشے بنانے والے عناصر، پروٹین، وٹامنز اور معدنیات کا جو امتزاج اس میں پایا جاتا ہے وہ بہت کم کسی پھل میں ہوتا ہے کسی بھی اور تازہ پھل کے مقابلے میں کیلا کیلوریز کی مقدار اور کم تر رطوبتوں کے اجزاءسے مالا مال ہوتا ہے۔ ایک بڑا کیلا ایک سو سے زیادہ کیلوریز رکھتا ہے۔ اس میں آسانی سے حل ہوجانے والی شکر کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے جو اسے فوری توانائی کا ذریعہ اور تھکن پر غالب آنے والے اجزاءکا وسیلہ بناتی ہے۔ دودھ کے ساتھ کیلا ایک مکمل متوازن غذا بن جاتا ہے۔ کیلا اور دودھ ایک دوسرے کو مثالی انداز میں ایسے غذائی اجزاءمہیا کرتے ہیں جو انسانی بدن کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔
انتڑیوں کی بیماریاں
کیلا اپنے نرم گودے اور ساخت کی بدولت انتڑیوں کی بیماریوں میں ایک عمدہ غذا ہے۔ اس میں ایک نامعلوم مرکب پایا جاتا ہے جسے ازراہ تفن وٹامن یو کہتے ہیں۔ انگریزی کا حرف یو.... السر کے حوالے سے ہے۔ یعنی وٹامن جو السر کے حوالے سے مفید ہے۔ کیلا ہی صرف ایسا پھل ہے جو کچی حالت میں استعمال کرنے پر معدے کے پرانے السر خراش کو کم کرتا ہے۔
قبض اور اسہال
کیلے قبض اور اسہال دونوں امراض میں بہت مفید ہیں کیونکہ یہ اسہال میں بڑی آنت کی کارکردگی بہتر بناتے ہیں۔ ان کے ذریعے بڑی آنت میں پانی کی زیادہ مقدار جذب ہوکر اجابت کو باقاعدہ بناتی ہے۔ قبض میں ان کا استعمال شافی ہوتا ہے۔
پیچش
پکے ہوئے کیلئے کا ملیدہ تھوڑے سے نمک کے ساتھ استعمال کرنا پیچش کا مفید علاج ہے۔ ڈاکٹر کرتی کار کے مطابق پکا ہوا کیلا، املی اور نمک ملا کر استعمال کرنا پیچش کا یقینی اور اکسیر علاج ہے۔ ڈاکٹر مذکور کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس نسخہ سے شدید اور پرانے پیچش کے متعدد مریضوں کا کامیاب علاج کیا ہے۔ بچوں میں پیچش کے لیے تو کیلا بہت مفید ہے۔ بچوں کو کھلانے کیلئے خوب پکے ہوئے کیلے کو اچھی طرح مسل کر کریم بنالیا جائے۔
گٹھیا اور جوڑوں کا درد
کیلے جوڑوں کے درد، سوزش اور گٹھیا کے علاج میں کارآمد ہیں۔ ان کیفیات میں کیلوں پر مشتمل غذا کا استعمال تین یا چار دن تک کافی رہتا ہے۔ مریض کو ان دنوں میں آٹھ سے نو کیلئے تک کھانے کیلئے دئیے جاتے ہیں۔ اسے کچھ اور کھانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
انیمیا
کیلوں میں چونکہ آئرن کا عنصر پایا جاتا ہے اس لیے یہ خون کی کمی کے امراض میں اچھا علاج ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے استعمال سے ہیموگلوبن (خون کے سرخ ذرات) کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
الرجی
جن لوگوں کو کچھ کھانوں سے الرجی ہوتی ہے اور جن کو جلد پر سرخ دھبوں یاسوزش یا جن لوگوں کو الرجی سے بدہضمی یا دمہ ہوجاتا ہے ان کیلئے کیلا بہت مفید ہے۔ پروٹین پر مشتمل کئی غذائوں کے برعکس جن میں الرجی پیدا کرنے والا مینو ایسڈ ہوتا ہے۔ کیلے میں پایا جانے والا امینو ایسڈ بہت موافق اثرات رکھتا ہے جو عموماً الرجی پیدا نہیں کرتا۔
گردوں کی بیماریاں
کیلے کا استعمال گردوں کی بیماریوں میں سود مند رہتا ہے کیونکہ ان میں پروٹین کی مقدار بہت کم جبکہ کاربوہائیڈریٹس زیادہ اور نمک کم ہوتا ہے۔ گردوں میں اجتماع اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے خون میں پیدا ہونے والے زہریلے اثرات میں بھی کیلے بہت مفید ہیں۔
تپ دق
کیلوں کو تپ دق کے علاج میں بھی کارگر سمجھا جاتا ہے۔ برازیل کے ڈاکٹر کے مطابق کیلے کے درخت جاوس یا معمول سے پکائے ہوئے کیلے تپ دق کے علاج میں معجزہ نمااثرات دکھاتے ہیں۔
پیشاب کی بیماریاں
کیلے کے تنے سے حاصل کیا گیا جوس پیشاب کی تکالیف میں معروف علاج ہے۔یہ گردے اور جگر کی کارکردگی کو موثر بناتا ہے اور ان میں تکلیف دہ اثرات اور بیماریوں کی کیفیات ختم کرتا ہے۔
حیض کی بے قاعدگی
کیلے کے پھول پکا کر دہی کے ساتھ کھانے سے حیض کی باقاعدگیاں دور ہوجاتی ہیں۔ ان میں تکلیف کے ساتھ حیض اور کثرت حیض شامل ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 477
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں